رملہ31جولائی(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)فلسطینی صدر محمود عباس نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ اسرائیل کے ساتھ امن بات چیت کی بحالی کی کوئی بھی کوشش ایک محدود نظام الاوقات کے اندر رہتے ہوئے اور بین الاقوامی نگرانی میں کیا جانا چاہیے۔فرانسیسی دارالحکومت سے اتوار اکتیس جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ صدر محمود عباس نے ہفتے کی رات امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے پیرس میں جو ملاقات کی، اس میں انہوں نے کھل کر کہہ دیا کہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے مذاکرات کی بحالی ناگزیر ہے۔تاہم مکالمت کی بحالی کی ایسی کسی بھی کوشش کے لیے وقت لامحدود نہیں ہوگااوریہ کوشش نہ صرف ایک مقررہ نظام الاوقات کے تحت کی جانا چاہیے بلکہ ایسا بین الاقوامی برادری کی نگرانی میں بھی ہوناچاہیے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی قیادت کو اب یہ امید بہت کم ہے کہ اس کی اسرائیلی حکومتی نمائندوں کے ساتھ کوئی بھی آئندہ بات چیت، جس کے لیے وقت کی کوئی میعاد مقرر نہ ہو اور جس کی بین الاقوامی نگرانی بھی نہ کی جا رہی ہو، خطے میں قیام امن میں معاون اور بہت نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہے۔
عباس اور کیری کی ملاقات سے قبل فلسطینی صدر نے فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں مارک اَیرو سے بھی ملاقات کی، جس میں جلدازجلد فلسطینی اسرائیلی تنازعے کے دو ریاستی حل تک پہنچنے کے امکانات پر بات چیت کی گئی۔ ان ملاقاتوں کے بعد اعلیٰ فلسطینی مذاکراتی اہلکار صائب عریقات نے صحافیوں کو بتایا کہ صدر عباس کی امریکی اور فرانسیسی وزرائے خارجہ سے یہ علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں بہت تعمیری ماحول میں ہوئیں۔صائب عریقات نے فلسطینی صدر کے ان دونوں مطالبات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ہمیں مذاکرات کے لیے ایک نظام الاوقات درکار ہے۔ ہمیں اس مکالمت میں کیے جانے والے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے ایک ٹائم ٹیبل کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ہم ایک ایسا فریم ورک بھی چاہتے ہیں، جس کی مدد سے بین الاقوامی برادری اسرائیل کے ساتھ مذاکرات اور ان میں طے پانے والے کسی بھی معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی کرسکے۔مشرق وسطیٰ میں دیرپا قیام امن کے لیے اسرائیلی فلسطینی مذاکراتی عمل ایک طویل عرصے سے تعطل کا شکار ہے اورفریقین کے مابین ایسا آخری باضابطہ مذاکراتی دور 2014ء میں ناکام ہو گیا تھا۔اس کے بعد سے فرانس کی خاص طور پر یہ کوشش ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کو دوبارہ کسی طرح مذاکرات کی میز پر لایا جا سکے تاہم پیرس حکومت ابھی تک اپنے ان ارادوں میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ فلسطینی فرانس کی ان کوششوں کا خیرمقدم کرتے ہیں جب کہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات کو ترجیج دے گا۔فلسطینی صدر عباس پیرس حکومت کی ان کوششوں کی بھی مکمل تائید کرتے ہیں کہ سال رواں کے آخر تک فلسطینی اسرائیلی تنازعے کے حل کے لیے ایک نئی بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہونا چاہیے۔پیرس میں جان کیری نے صدر محمود عباس کے ساتھ ملاقات کے علاوہ اپنے فرانسیسی ہم منصب ژاں مارک اَیرو سے بھی علیحدگی میں ملاقات کی، جس میں فلسطینی اسرائیلی تنازعے پر گفت گو کی گئی۔
باویریا کے وزیر اعلیٰ کا مہاجرین سے متعلق میرکل کی پالیسیوں سے اختلاف
برلن31جولائی(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)جرمن صوبے باویریا میں چانسلر انگیلا میرکل کے اتحادی وزیر اعلیٰ ہورسٹ زیہوفر نے وفاقی حکومت کی مہاجرین سے متعلق پالیسی کے حوالے سے دوری اختیار کر لی ہے۔ چند روز قبل میرکل نے جرمنی میں دہشت گردانہ واقعات اور ان میں بعض مہاجرین کے عمل دخل کے بعد اپنی مہاجر دوست پالیسیوں کا دفاع کیا تھا، جس پر ان کی حکومت میں شامل بعض افراد بھی نکتہ چینی کر رہے ہیں۔ میرکل کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے یورپ اور جرمنی پہنچنے والے پناہ کے متلاشیوں کو ملک میں ضم کیا جا سکتا ہے۔ زیہوفر کا کہنا ہے کہ وہ اس بابت تحفظات رکھتے ہیں۔